مشاورت اور تھراپی
ایک بہتر کل کی جانب رواں دواں
انکار، غصہ، سودے بازی، ڈپریشن اور قبولیت
ان مراحل کے متعارف ہونے کے بعد ان میں کئی تبدیلیاں آئی ہیں، اور پچھلی تین دہائیوں کے دوران ان کے متعلق کئی غلط فہمیاں بھی سامنے آئی ہیں۔ ان کا مقصد ہرگز یہ نہيں تھا کہ ہمارے بے ترتیب جذبات کو ترتیب شدہ ڈبوں میں بند کیا جائے۔ یہ مراحل کسی کو کھو دینے کے غم کے ردعمل کے طور پر ابھرتے ہیں۔ تاہم، چونکہ ہم سب کے غم کی نوعیت مختلف ہوتی ہے، اسی لئے ہر کسی کا رعدعمل بھی مختلف ہوتا ہے۔
یہ پانچ مراحل، یعنی انکار، غصہ، سودے بازی، ڈپریشن اور قبولیت، اس فریم ورک کا حصہ ہیں جو ہمیں کسی کو کھو دینے کے غم کا مقابلہ کرنے میں معاونت فراہم کرتا ہے۔ یہ ہمیں اپنے احساسات کو تشکیل دینے اور ان کی نشاندہی کرنے میں معاونت ضرورت فراہم کرتے ہيں، لیکن یہ کسی مخصوص سلسلے کی کڑی نہیں ہیں۔ یہ ضروری نہيں ہے کہ ہم ان تمام مراحل سے گزریں اور نہ ہی یہ ضروری ہے کہ ان کی ترتیب یہی رہے۔ ہم امید کرتے ہيں کہ ان مراحل کی بدولت غم کو بہتر طور پر سمجھنا ممکن ہو سکے، جس سے ہمارے لئے زندگی اور کسی کو کھو دینے کے غم کا بہتر طور پر مقابلہ کیا جا سکے۔
انکار
یہ غمگینی کا پہلا مرحلہ ہے جو ہمیں کسی کو کھو دینے کے غم کا مقابلہ کرنے میں مدد کرتا ہے۔ اس مرحلے میں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے پوری دنیا بے مطلب ہو گئی ہے اور ہر ایک چیز بوجھ لگتی ہے۔ زندگی کی مزید سمجھ بوجھ نہيں رہتی۔ ہم صدمے میں ہوتے ہيں اور حقیقت سے انکار کرتے ہیں۔ ہر ایک احساس ختم ہو جاتا ہے۔ ہمیں سوچنے لگتے ہيں کہ کیا زندگی آگے بڑھے گی، اور اگر بڑھے گی تو کیوں اور کیسے؟ ہمارا مقصد بس یہی ہوتا ہے کہ کسی طرح بس دن کٹتے جائيں اور ہم دن کاٹنے کے طریقے ڈھونڈنے لگتے ہيں۔ انکار اور صدمے کے ذریعے ہمارے لئے حالات کا مقابلہ کرنا اور زندہ رہنا ممکن ہوتا ہے۔ ان جذبات کی وجہ سے ہمارے لئے غم کے احساسات کی شدت کم کرنا ممکن ہوتا ہے۔ انکار میں ایک وقار ہوتا ہے۔ ہم اپنے دل و دماغ میں صرف اتنا ہی دکھ سماتے ہيں جتنا ہم برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہيں۔
جیسے جیسے آپ دکھ کی حقیقت قبول کرنے لگتے ہيں اور خود سے سوالات پوچھنے لگتے ہیں، ویسے ہی غیردانستہ طور پر زخم بھرنے کا عمل شروع ہوتا ہے۔ آپ کی ہمت بڑھنے لگتی ہے اور انکار میں کمی آنا شروع ہوتی ہے۔ لیکن آپ جیسے جیسے آگے بڑھتے ہیں، ویسے ویسے وہ تمام جذبات واپس ابھرنے لگتے ہيں جن سے آپ انکار کر رہے تھے۔
غصہ
غصہ زخم بھرنے کے عمل کا ضروری مرحلہ ہے۔ اگر آپ کو غصہ آئے تو خود کو یہ احساس ہونے دیں، خواہ یہ آپ کو کتنا ہی طویل کیوں نہ لگے۔ آپ کو جتنا زيادہ غصہ محسوس ہوگا، آپ کا غصہ اتنا ہی کم ہونا شروع ہوگا اور آپ کے زخم اتنے ہی زيادہ بھریں گے۔ غصے کے نیچے کئی جذبات چھپتے ہوتے ہيں اور وہ وقت کے ساتھ ساتھ ابھریں گے، لیکن غصہ ایک ایسا جذبہ ہے جس کے ہم سب ہی عادی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ غصے کی کبھی کوئی حد نہيں ہوتی۔ آپ اپنے دوستوں، ڈاکٹروں، گھر والوں، خود، اور اپنے مرحوم عزيز سے تو غصہ ہوتے ہی ہیں، لیکن آپ بعض دفعہ خدا سے بھی ناراض ہوتے ہیں، اور پوچھنے لگتے ہيں کہ "خدا کہاں ہے؟"
غصے کے نیچے درد چھپا ہوتا ہے۔ آپ کا درد۔ تنہا محسوس کرنا ایک قدرتی امر ہے، لیکن ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہيں جہاں عام طور پر غصے کا خوف پایا جاتا ہے۔ غضہ مضبوطی کو جنم دیتا ہے، اور یہ غم کے خلاء کو عارضی ساخت دے کر آپ کو سنبھال کر رکھ سکتا ہے۔ شروع میں تو غم کے باعث آپ کو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے آپ کسی گہرے سمندر میں کھو گئے گئے ہيں اور آپ کو دور دور تک کوئی نظر نہيں آتا۔ اس کے بعد آپ کو کسی نہ کسی پر غصہ آنے لگتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کو کسی ایسے شخص پر غصہ آئے جس نے جنازے میں شرکت نہيں کی۔ ہو سکتا ہے کہ آپ کے غصے کا نشانہ کوئی ایسا شخص بنے جو آپ کے پاس موجود نہيں ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کسی ایسے شخص سے ناراض ہو جائيں جو اب آپ کے عزیز کے جانے کے بعد بدل گیا ہے۔ اچانک آپ کو ایک سمت نظر آنا شروع ہوتی ہے – ان کی طرف آپ کے غصے کی شکل میں۔ یہ غصہ کھلے سمندر پر ایک پل کی طرح نظر آنے لگتا ہے، جس کے ذریعے کسی نہ کسی سے آپ کا رابطہ قائم رہتا ہے۔ ایک ایسی چیز جسے آپ پکڑ کر چل سکتے ہیں، اور غصے کی شدت سے دوسروں سے آپ کا رابطہ جڑنے لگتا ہے۔۔ ہم عام طور پر غصہ محسوس کرنے کے بجائے اسے دبا کر رکھنے کے احساس سے زيادہ واقف ہوتے ہيں۔ یہ غصہ محض آپ کی محبت کی شدت کی ایک اور علامت ہے۔
سودے بازی
کسی کو کھو دینے سے پہلے، آپ کو ایسا لگتا ہے جیسے آپ ان کی جان بچانے کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔ آپ خدا سے سودے بازی کرنے لگتے ہیں۔ "اگر میری بیوی بچ گئی تو میں اس سے دوبارہ کبھی نہيں لڑوں گا۔" ان کے جانے کے بعد، ہو سکتا ہے کہ یہ سودے بازی ایک عارضی صلح کی شکل اختیار کر لے۔ مثال کے طور پر آپ سوچ میں پڑ جاتے ہيں کہ اپنی زندگی دوسروں کی مدد میں صرف کرنے کے بعد کیا اپ کو احساس ہوگا کہ یہ سب ایک بہت بھیانک خواب تھا۔
ہم سوچنے لگتے ہيں کہ "اگر ایسا ہوتا تو کیا ہوتا؟" اور پھر ہم انہی سوچوں میں گم ہو جاتے ہيں۔ ہم چاہتے ہيں کہ زندگی ویسی ہی ہو جائے جیسے پہلے تھی، اور ہمیں ہمارا عزیز کسی نہ کسی طرح واپس مل جائے۔ ہم اپنے ماضی میں جا کر ٹیومر کی پہلے تشخیص کرنا چاہتے ہيں، اس حادثے کو روکنا چاہتے ہيں۔ اکثر سودے بازی کے ساتھ احساس جرم بھی پایا جاتا ہے۔ اس سب "اگر ایسا ہوتا تو۔۔۔" کے بیچ میں ہم خود کو اور اپنے اقدام کو ذمہ دار ٹھہرانے لگتے ہیں۔ ہم درد سے بھی سودے بازی کرنے لگتے ہيں۔ ہم اس غم کے درد کو بھلانے کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جاتے ہيں۔ ہم ماضی سے نہیں نکل پاتے اور درد ختم کرنے کے لئے مذاکرات کرنے لگتے ہيں۔ لوگ اکثر سمجھتے ہيں کہ یہ مراحل کئی ہفتوں یا مہینوں تک قائم رہتے ہيں۔ وہ یہ بھول جاتے ہيں کہ جیسے جیسے ہمارے جذبات بدلتے ہيں، ہمارے رد عمل میں بھی تبدیلی آتی رہتی ہے۔ ہم باری باری ہر مرحلے میں داخل نہيں ہوتے۔ ان کی ترتیب تبدیل ہوتی رہتی ہے۔
ڈپریشن
سودے بازی کے بعد ہماری توجہ ماضی سے ہٹ کر حال کی طرف چلی جاتی ہے۔ کھوکھلے جذبات ابھرنے لگتے ہيں اور غم ہماری زندگی میں ہماری سوچ سے بھی زیادہ شدت اختیار کرنے لگتا ہے۔ ہمیں ایسا لگنے لگتا ہے جیسے یہ کبھی ختم نہيں ہوگا۔ یہ یاد رکھنا بہت ضروری ہے کہ یہ ڈپریشن کسی ذہنی مرض کی علامت نہيں ہے۔ یہ کسی شدید غم کا مناسب اور قدرتی ردعمل ہے۔ ہم شدید اداسی کے دلدل میں پھنس کر اپنی زندگی سے دور ہونے لگتے ہيں اور سوچنے لگتے ہيں کہ کیا زندہ رہنے کا کوئی مقصد باقی بھی ہے؟ ہم کس کے لئے جی رہے ہيں؟ اکثر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ کسی کو کھو دینے کے بعد محسوس کرنے والا ڈپریشن غیرقدرتی ہے، اور اسے ٹھیک کرنے یا اس سے جلد از جلد جان چھڑانے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے آپ کو خود سے یہ پوچھیں کہ کیا صورت حال واقع ڈپریشن کی وجہ بن سکتی ہے؟ کسی کو کھو دینا بہت بڑا دکھ ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں ڈپریشن کا شکار ہونا ایک قدرتی امر ہے۔ بلکہ کسی عزیز کے مر جانے کے بعد ڈپریشن محسوس نہ کرنا بہت عجیب بات ہوگی۔ اس میں کوئی تعجب کی بات نہيں ہے کہ جب کسی کو کھو دینے کا درد آپ پر پوری طرح حاوی ہو جائے تو اپنے عزیز کو کبھی دوبارہ نہ دیکھنے کا خیال ڈپریشن کو جنم دیتا ہے۔ اگر ہم غم کو درد کم کرنے کا عمل سمجھیں تو ڈپریشن کا شمار اس کے ضروری اقدام میں ہوتا ہے۔
قبولیت
اکثر یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ قبولیت کا مطلب "ٹھیک ہونا" ہے۔ تاہم اس میں کوئی سچائی نہيں ہے۔ کسی کو کھو دینے کے بعد زیادہ تر افراد کبھی بھی "ٹھیک" محسوس نہيں کرتے۔ اس مرحلے کا تعلق آخرکار اس حقیقت کو قبول کرنے سے ہے کہ ہم جس شخص سے بے پناہ محبت کرتے تھے، وہ اب اس دنیا میں نہيں رہے اور اب ہمیں اسی حقیقت کے ساتھ پوری زندگی گزارنی ہے۔ یہ حقیقت بہت تلخ ہے اور ہم کبھی بھی "ٹھیک" نہيں ہوں گے، لیکن آہستہ آہستہ ہم اسے قبول کر لیتے ہيں۔ ہم اس کے ساتھ زندگی گزانا سیکھ لیتے ہيں۔ اب بس یہی زندگی ہے اور ہمیں اس کے ساتھ جینا ہے۔ ہمیں ایک ایسی زندگی گزارنی ہے جس میں اب وہ شخص شامل نہيں ہے۔ کئی لوگ اس نئی حقیقت سے لڑتے ہوئے اپنی زندگی اسی طرح گزارنے کی کوششیں کرتے ہیں جیسے وہ پہلے گزارتے تھے۔ تاہم وقت اور قبولیت کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ ہماری زندگی پوری طرح اورہمیشہ کے لئے بدل گئی ہے اور اب وہ پہلے والی زندگی واپس نہيں آ سکتی۔ اب ہمارے پاس ان نئے حالات کے مطابق زندگی گزارنے کے علاوہ کوئی چارہ نہيں ہے۔ ہمیں ذمہ داریوں میں تبدیلیاں لانے، اور انہيں دوسروں کو متعین کرنے یا خود سے نبھانے کی ضرورت ہے۔
ہمارے کچھ دن اچھے گزريں گے اور کچھ برے۔ ہو سکتا ہے کہ قبولیت کا مطلب یہ ہو کہ اچھے دنوں کی تعداد برے دنوں کی تعداد سے زيادہ ہو۔ جب ہم دوبارہ زندگی جینے لگتے ہيں اور ہمیں اپنی زندگی میں دوبارہ خوشی ملنے لگتی ہے تو ہمیں اکثر ایسا لگتا ہے کہ ہم اپنے عزیز کے ساتھ بے وفائی کر رہے ہيں۔ ہم نے جو کھویا ہے، وہ ہمیں کبھی بھی واپس نہيں مل سکتا، لیکن ہم نئے رابطے قائم کر سکتے ہيں اور نئے پرمعنی تعلقات جوڑ سکتے ہيں۔ اپنے جذبات سے منہ پھیرنے کے بجائے، ہم اپنی ضروریات کو نظرانداز کرنے کے بعد ان کا اعتراف کرنے لگتے ہيں اور انہيں پورا کرنے لگتے ہیں۔ ہم حرکت میں آتے ہیں، ہم خود کو تبدیل کرتے ہيں، اور ہم پروان چڑھتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ہم دوسروں سے رابطہ کرنے لگے اور ان کی زندگیوں میں شامل ہونے لگيں۔ ہم اپنی دوستیوں اور دوسروں کے ساتھ اپنے رشتوں میں زیادہ دلچسپی کا مظاہرہ کرنے لگتے ہیں۔ ہم دوبارہ زندگی گزارنے لگتے ہيں، لیکن ہم اس وقت تک ایسا نہيں کر سکتے جب تک ہم غمگینی کے عمل کو مکمل نہ ہونے دیں۔
ماخذ: http://grief.com/the-five-stages-of-grief/ ;
مصنف: ایلزبتھ کوبلر-راس
پاکستان میں علاج کے وسائل:
1. کنکروں کا گھر - کراچی
2. تسکین
3. مرکز برائے جامع نگہداشت
4. تھراپی کے کام - کراچی، لاہور، اسلام آباد اور ملتان
5. ڈاکٹر افشین انور، پی ایچ ڈی، کلینیکل اینڈ کونسلنگ سائیکولوجسٹ برائے ایڈ
ثنا انور کراچی میں ماہر نفسیات ہیں۔
وہ ذاتی سیشن میں پیش کر سکتی ہے اور +92 333 3604396 پر رابطہ کر سکتی ہے۔
ڈاکٹر افشین انور آن لائن سیشن پیش کرتی ہیں اور ان سے +1 (647) 453-9995 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔