ہماری کہانی
ہ تنظیم ہماری بانی کومل سید کے مرحوم شوہر محمد طحہ رفیع (1976-2015) کی یاد میں قائم کی گئی ہے، جو 2015 میں ایک جی بی ایم کے باعث اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
ہم امید کرتے ہيں کہ پاکستان میں برین ٹیومر سے متاثرہ ہر ایک شخص کی راہ مزید ہموار ہو اور انہیں ان مشکلات سے نہ گزرنا پڑے جن سے میں اور طحہ دوچار ہوئے۔
مجھے 2012 کے وہ چند مہینے اچھی طرح یاد ہیں جیسے کل کی بات ہو۔ میرے شوہر طحہ کو دنیا گھومنے کا حد سے زیادہ شوق تھا اور ہم 22 اکتوبر کو ترکی جانے والے تھے۔ تاہم ہماری روانگی سے ایک ہفتہ قبل طحہ کے سر میں بہت شدید درد اٹھنا شروع ہوا، اور ہماری پرواز سے دو روز پہلے انہیں ہسپتال میں مزید تحقیق کے لئے داخل ہونا پڑا۔
نیورولوجسٹ نے ہمیں بتایا کہ طحہ کو صرف مائگرین سے زیادہ کچھ نہيں ہوا، لیکن طحہ کو اس جواب سے تسلی نہيں ہوئی۔ انہوں نے اصرار کر کے اپنا ایم آر آئی کروایا۔ 25 اکتوبر کو طحہ کی تیسری وینٹریکیولوسٹومی (ventriculostomy) اور ایک بائیوپسی ہوئی، جس سے دماغی کینسر کی تصدیق ہوئی۔ اس کے بعد، 19 دسمبر کو ان کے دماغ کی سرجری کرکے ٹیومر کو نکالنے کی کوشش کی گئی۔ اس سرجری کے بعد ہونے والی بائیوپسی کے نتیجے میں ہمیں معلوم کہ طحہ کسی معمولی برین ٹیومر کے نہيں بلکہ جی بی ایم (GBM) کا شکار تھے، جسے سب سے جارحانہ قسم کا دماغی کینسر سمجھا جاتا ہے۔
اس وقت ہماری شادی کو طرف تین سال ہوئے تھے، اور ہم پر تو جیسے پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ ہمیں یقین ہی نہيں ہورہا تھا کہ طحہ جیسا جوان اور صحت مند شخص کینسر کا شکار ہوسکتا ہے۔ طحہ نہایت ذہین ہونے کے ساتھ بہت خودمختار، ہر کسی کی عزت کرنے والا، ہر ایک سے اچھے سے گھلنے ملنے والا، اور زندگی کا بھرپور لطف اٹھانے والا شخص تھا۔ اسے کس طرح کینسر ہوسکتا تھا؟ مجھے اور ہمارے گھر والوں کے جیسے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی تھی، طحہ پر جانے کیا گزر رہی ہوگی؟ لیکن اس سب کے باوجود طحہ نے امید کا دامن نہیں چھوڑا، اور اپنے ساتھ ہمارے بھی حوصلے کو کبھی پست نہيں ہونے دیا۔
کینسر کی تشخیص کے بعد، ہماری زندگیاں رک سی گئیں۔ اگلے چند مہینوں کے دوران سب کچھ اتنی تیزی سے ہوا کہ میرے لئے اسے سمجھنا آج بھی بہت مشکل ہے۔ طحہ کے لئے اپنی دماغی اور ذہنی صلاحیتوں کی تبدیلیوں کے ساتھ زندگی گزارنا اور میرے لئے اپنی ہمہ وقتی ملازمت کے ساتھ ان کی دیکھ بھال کرنا بہت دشوار ثابت ہورہا تھا۔ مجھے جلد ہی احساس ہوگیا کہ میری ترجیحات اب وہ نہيں رہيں جو پہلے تھیں۔ میرے شوہر کی بیماری اور میری نئی ذمہ داریوں کے باعث ہمیں دنیا کا ایک ایسا پہلو دیکھنے کو مل رہا تھا جس کے بارے میں ہم نے کبھی سوچا بھی نہيں تھا۔ ہم طحہ کی بیماری کے بارے میں معلومات حاصل کرنے اور اچھے سے اچھا علاج کروانے کی کھوج میں لگ گئے۔ ہماری کوشش یہی تھی کہ امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے، اور اس مقصد میں ہمارے دوستوں اور گھر والوں نے ہمارا بہت ساتھ دیا کیا لیکن سچ پوچھیں تو کبھی نہ کبھی ناامیدی کا احساس ضرور ہوتا تھا۔ ہمیں جلد ہی معلوم ہوگیا کہ پاکستان اور بیرون ملک میں ہیلتھ کیئر کا نظام کس قدر پیچیدہ ہے اور برین ٹیومر کے شکار افراد کو کتنی زیادہ نگہداشت کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔ برین ٹیومر کی تصدیق ہونے کے دو سال بعد، یعنی 2014 میں، میں نے اپنی ملازمت چھوڑ دی تاکہ میں اپنے شوہر کو اپنا پورا وقت دے سکوں۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ میری زندگی کا بہترین فیصلہ تھا کیونکہ اس سے مجھے ایک ایسے وقت میں اپنے شوہر کا ساتھ دینے کا موقع ملا جب انہیں میری سب سے زیادہ ضرورت تھی۔
جی بی ایم کے شکار افراد اور ان کے گھر والوں کو اکثر ایسا لگتا ہے جیسے ان کی زندگی الٹ گئی ہو اور ہمارے ساتھ بھی ایسے ہی ہوا۔ تاہم اب جب میں اپنی زندگی کے اس دور کے بارے میں سوچتی ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ ہم کتنے تنہا تھے۔ ہم بہت خوش قسمت تھے کہ ہمارے دوستوں اور گھر والوں نے ہر موڑ پر ہماری مدد کی۔ تاہم ہم ایسے کسی شخص کو نہیں جانتے تھے جو ہماری طرح برین ٹیومر کو مات دینے کی کوشش کر رہے تھے۔ پاکستان کے شہر کراچی میں آغا خان ہسپتال کے ڈاکٹروں نے آگے بڑھ کر میرے اور طحہ کا بہت ساتھ دیا، لیکن ڈاکٹروں اور عزیز و اقارب کے علاوہ ایسی کوئی کمیونٹی نہیں تھی جو ہمیں مشاورت فراہم کر سکے اور ہمارا دکھ درد بانٹ سکے۔
اپنی بیماری کی تصدیق کے تین سال بعد، طحہ برین کینسر کے ساتھ اپنی لڑائی ہار گئے اور نومبر 2015 میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
کم عمری میں بیوہ ہونے کے بعد، جب میں اپنی بکھری ہوئی زندگی کے ٹکڑے سمیٹ رہی تھی، اس وقت میں نے اپنے نئے مقصد کی طرف پہلا قدم اٹھانا شروع کیا۔ میں اپنے والدین کے پاس کینیڈا چلی گئی، جہاں میں نے برین ٹیومر فاؤنڈیشن آف کینیڈا کے ساتھ رضاکارانہ بنیاد پر کام کرنا شروع کیا۔ میں اس مرض کے شکار افراد اور ان کے عزیز و اقارب کی کسی نہ کسی طرح مدد کرنا چاہتی تھی، اور اس تجربے کی بدولت مجھے احساس ہوا کہ کینیڈا اور پاکستان میں کتنا فرق ہے۔ یہاں برین ٹیومر کے شکار افراد اور انہیں نگہداشت فراہم کرنے والوں کی مدد اور مشاورت کے لئے دستیاب وسائل کے نتیجے میں ان کے لئے اس بیماری سے نمٹنا کہیں زیادہ آسان تھا۔ میں سوچ میں پڑ گئی کہ اگر یہ وسائل مجھے اور طحہ کو میسر ہوتے تو ہمارا تجربہ کس قدر مختلف ہوتا۔
اس طرح مجھے پاکستان میں برین ٹیومر سے متاثرہ تمام افراد کی مدد اور مشاورت کے لئے ایسا ہی ادارہ قائم کرنے کا خیال آیا۔
برین ٹیومر فاؤنڈیشن آف پاکستان 2020 میں میرے مرحوم شوہر محمد طحہ رفیع کی یاد میں قائم کیا گیا ہے۔
ہمارا مقصد پاکستان میں برین ٹیومر سے متاثرہ ہر ایک شخص کو معاونت، آگاہی، معلومات، اور تحقیق تک رسائی فراہم کرنا اور برین ٹیومر کے عالمی نقشے پر پاکستان کی درست طریقے سے نمائندگی کرنا ہے۔
ہم پاکستان میں برین ٹیومر سے متاثر ہر ایک شخص کی زندگی بہتر بنانے اور ایک دن اس مرض کا علاج ڈھونڈنے میں معاونت فراہم کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔
میرا ذاتی مقصد یہ ہے کہ پاکستان میں برین ٹیومر سے متاثرہ ہر ایک شخص کی راہ مزید ہموار ہو اور انہیں وہ مشکلات سے نہ گزرنا پڑے جو میں نے اور طحہ نے دیکھیں۔
ہمارا ادارہ تین بنیادی مقاصد پر کام کر رہا ہے:
1۔ اس مرض کے متعلق آگاہی میں اصافہ کرنا اور اس کا شکار ہونے والے افراد اور ان کے عزیز و اقارب کو معلومات فراہم کرنا۔ یہ ہمارا بنیادی مقصد ہے اور ہم شروع سے ہی اس پر کام کر رہے ہیں۔ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ برین ٹیومر کی تشخیص کے بعد کتنی پریشانی کا سامنا ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں برین ٹیومر کی مختلف اقسام کے متعلق معلومات تلاش کرنا آسان کام نہیں ہے۔ ہم انٹرنیٹ پر اور پاکستان کے نمایاں کینسر ہسپتالوں میں معلوماتی کتابچوں کے ذریعے ان افراد کی مشکلات آسان کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری فراہم کردہ معلومات خاص طور پر پاکستان میں رہنے اور علاج کروانے والے افراد کے لئے تیار کی جائے گی۔
2. ہمارا اگلا مقصد مریضوں اور ان کے گھر والوں کو غیر طبی شکل میں معاونت کی فراہمی ہے۔ اس کے لئے ہم یا تو انہیں خود مشاورتی سہولیات فراہم کریں گے یا دوسری تنظیموں سے متعارف کریں گے جو ان کی مدد کر سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر، ہم مختلف شہروں کے علاوہ بذریعہ انٹرنیٹ سپورٹ گروپس تک رسائی فراہم کر سکتے ہیں اور ایک اہل اور رجسٹر شدہ تیسرے فریق کے ذریعے ماہرین نفسیات کے ساتھ مشاورتی سیشنز کا بھی انتظام کر سکتے ہیں۔
3. آخر میں ہم مریضوں کے علاج کے علاوہ پاکستان کے لئے ایک مخصوص قومی کینسر رجسٹری (جس کا اس وقت سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے) قائم کرنے کے لئے رقم جمع کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس وقت پاکستان میں برین ٹیومر کے کیسز کی حقیقی تعداد ریکارڈ کردہ کیسز کی تعداد سے کئی گنا زیادہ ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ہم برین ٹیومر کے عالمی نقشے پر پاکستان کی جتنی بہتر نمائندگی کر سکیں گے، ہمارے لئے معاونت حاصل کرنا اتنا زیادہ آسان ہوگا اور اس خطے میں برین ٹیومرز پر ہونے والی تحقیق کی درستی میں اتنا اصافہ ممکن ہوگا۔
طاہ اور میری ذاتی کہانی اور مشن کے بارے میں پڑھنے کے لئے آپ کا شکریہ۔ برائے مہربانی طاہ کو اپنی دعاؤں میں رکھیں۔
کومل سید (بانی)
برین ٹیومر فاؤنڈیشن آف پاکستان کے متعلق مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے براہ مہربانی ہماری ٹیم سے رابطہ کریں۔