top of page
Search
Aisha Sarwari

یاسراور میں


مصنف اور وکیل یاسر حمدانی 2017 میں ایک روز جم میں ورزش کر رہے، جب وہ کھڑے کھڑے گر گئے۔ جب ان کی اہلیہ عائشہ سروری نے انہيں سنبھالنے کے لئے پکڑا، تو یاسر کو دورہ پڑنے لگا۔ عائشہ نے بتایا کہ ایمبولنس میں یاسر کا دل جواب دینا لگا اور ان کی جان نکلنے لگی۔ انہیں ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ لے جایا گیا، جہاں ایک سی ٹی اسکین کے بعد یاسر کے دماغ میں آلیگوڈینڈریوگلیوما (oligodendrogliomq) نکلا۔ اس سے پہلے یاسر کا جسم اکثر کانپتا تھا، انہيں دوسروں کے ساتھ میل جول کے دوران مشکلات کا سامنا تھا، انہيں چیزوں کا جنون کی حد تک شوق رہتا تھا، اور ان کی تشخیص سے کچھ عرصہ پہلے انہیں نیند بھی بہت زيادہ آنے لگی تھی، یہاں تک کہ وہ کانسرٹس اور دفتری میٹنگز میں بھی اکثر سو جاتے تھے۔ تشخیص کے بعد، آخر عائشہ کو ان تمام علامات کی وجہ سمجھ میں آئی۔ یاسر کی تشخیص کے بعد ان کے خاندان پر جیسے مصیبت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ پہلے تو اکتوبر 2017 میں انہيں بے ہوش کئے بغیر ان کی آٹھ گھنٹے لمبی کرینیوٹومی کروائی گئی۔ ان کا ٹیومر 2018 میں واپس آگیا، جس کے نتیجے میں کرونا وائرس کی وبا کے باوجود ان کی 2020 میں دوبارہ بے ہوش کئے بغیر کرینیوٹومی کروائے گئی، جو آٹھ گھنٹوں تک جاری رہی۔ اس کرینیوٹومی کے بعد ان کی کیموتھراپی اور ریڈیشن کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ پچھلے تین سالوں کے دوران، ان کی علامات نے مزید شدت اختیار کرنا شروع کی، اور ان کی جذباتی عدم توازن کے باعث ان کی ملازمت اور ذاتی اور پیشہ ورانہ تعلقات بری طرح متاثر ہوئے۔ ان مشکلات کے باوجود یاسر نے پاکستان کے بانی محمد علی جناج پر ایک کتاب لکھی جو پین مک ملن نامی ناشر نے شائع بھی کی۔ محمد علی جناح سے لگاؤ کی وجہ سے وہ بار کا امتحان پاس کرکے بیرسٹر بننے میں بھی کامیاب ہوگئے۔ یاسر اور میں اس بیماری کے ساتھ کس طرح لڑ رہے ہيں: کرونا وائرس کی وبا کے باعث عملدرآمد ہونے والی سماجی دوری کی وجہ سے ہماری زندگی بہت مشکل ہوگئی ہے۔ برین ٹیومر جیسی مہلک بیماری سے لڑنے کے لئے دوسروں کا ساتھ بہت ضروری ہوتا ہے۔ تاہم اب ہماری پریشانی کچھ حد تک کم ہوگئی ہے، اور ہمارے لئے اس بیماری سے لڑنا تھوڑا آسان ہوکیا ہے۔ یاسر کا ڈپریشن کافی کم ہوگیا ہے، اور وہ اپنی زندگی پہلے کی طرح جینے میں کافی حد تک کامیاب بھی ہوگئے ہیں۔ ان کی ہمت دیکھ کر مجھے دوا اور دعا، دونوں کی اہمیت کا اندازہ ہوا۔ آخر میں میں یہ کہنا چاہوں گی کہ برین ٹیومر کے شکار افراد کو مخصوص نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے، جو اس وقت پاکستان میں موجود نہيں ہے۔ اس بیماری کے باعث روزمرہ کاموں کا بوجھ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ اسی لئے ہمیں طبی کے ساتھ جذباتی معاونت کی بھی ضرورت تھی، جس میں مریض کے ساتھ اس کی دیکھ بھال کرنے والوں کے لئے مشاورت اور تجاویز بھی شامل ہوں۔ یہ کہنا غلط نہيں ہوگا کہ اس تجربے سے میری اور یاسر، دونوں ہی کی ذہنی صحت بری طرح متاثر ہوئی۔ ہمیں ذہنی صحت کے ایسے ماہرین کی ضرورت تھی جو اس مہلک مرض اور اس کے اثرات سے اچھی طرح واقف تھے۔ تاہم پاکستان میں ایسے ماہرین بہت ہی کم ہیں۔ اس کے علاوہ، پاکستان میں شاید ہی برین ٹیومر سے متاثرہ افراد کی کوئی منظم کمیونٹی یا سپورٹ گروپ ہوگا، جہاں لوگ ایک دوسرے کا دکھ درد بانٹنے کے ساتھ انہيں روزمرہ زندگی گزارنے کے مشورے بھی دے سکیں۔ ہم سب ہی کو اس بیماری کے تباہ کن اثرات اور ذہنی صحت کے چیلنجز سے نمٹنے کے لئے مدد کی ضرورت پڑتی ہے۔ ایسا مواد بھی ڈھونڈ نکالنا بہت مشکل ہے جس میں اس بیماری کے متاثرہ افراد کی زندگی پر اثرات کے متعلق بات کی گئی ہو۔ یہ ہم سب کے لئے ایک بہت سنگین مسئلہ ہے۔ عائشہ سروری، یاسر لطیف حمدانی کی اہلیہ


عائشہ ایک بہت کامیاب پیشہ ورانہ خاتون ہیں، اور یاسر دو کتابوں: Jinnah: Myth & Reality، اور Jinnah: A Life کے مصنف ہیں۔



28 views0 comments

Recent Posts

See All

Opmerkingen


Post: Blog2_Post
bottom of page