جی بی ایم اور میری نانی
top of page
Search
  • Ruqayya Diwan Adamjee

جی بی ایم اور میری نانی


70 سال کی عمر میں شاید ہی کوئی ٹیکنالوجی سے اتنا واقف ہوگا جتنی میری نانی تھیں۔ وہ فیس بک پر بہت سرگرم تھیں، اور اپنے آئی فون پر بہت آسانی سے ٹائپ کر لیتی تھی۔ انہوں نے اپنا وقت بچانے کے لئے الفاظ کو مختصر کرکے لکھنے کا بھی طریقہ ڈھونڈ نکالا تھا۔ وہ please کو pl، thanks کو tks، اور house کو hse لکھا کرتی تھیں۔ انہيں نئی چیزیں کرنے کا بہت شوق تھا۔ چند سال پہلے، قلابازی کرنے کے چکر میں ان کی گردن ذرا سے میں بچ گئی۔ جب میں کالج میں پڑھ رہی تھیں، وہ مجھ سے ملنے آئيں، اور جب میرے بھاری بیگ کا پہیہ ٹوٹ گیا تو وہ اسے ایئرپورٹ پر اپنے ہاتھوں میں اٹھا کر چل پڑيں۔ ان کی کاروباری صلاحیتوں کا کوئی جواب نہيں تھا۔ انہوں نے اپنے تین دوستوں کے ساتھ چٹاگانگ گرامر اسکول قائم کیا، جسے آج بنگلہ دیش کے شہر چٹاگانگ کا بہترین اسکول مانا جاتا ہے۔ ایک روز میری نانی نے ہمیشہ کی طرح صبح کا اخبار اٹھایا، لیکن ان سے پڑھا نہيں گیا۔ انہيں ایک چھوٹا سے پیراگراف پڑھنے میں آدھا گھنٹہ لگ رہا تھا۔ انہوں نے جب ہمیں بتایا تو ہم نے انہیں فوراً شہر لے جانے کے لئے ہوائی جہاز کا ٹکٹ بک کیا، اور وہاں جا کر ان کا ایم آر آئی کروایا گیا۔ اگلے روز جب میں صبح اٹھی تو میرے فون پر اس قسم کے میسیجز آئے ہوئے تھے: "انہيں ٹیومر ہے"، "اس کی لمبائی 3 سینٹی میٹر اور چوڑائی 3 سینٹی میٹر ہے"، "دورہ پڑنے کا خطرہ ہے"، "وہ سفر نہيں کر سکتیں"، "ہمیں ایک دن میں فیصلہ کرنا ہوگا"۔ میں بتا نہيں سکتی وہ سال ہم سب کے لئے کتنا مشکل تھا۔ وہ سب سے جارحانہ قسم کا برین ٹیومر، یعنی سٹیج IV گلیوبلاسٹوما (glioblastoma)، کا شکار تھیں۔ میں نے اس سے پہلے اس کا نام بھی نہيں سنا تھا، لیکن میرے لئے اب اس برین ٹیومر نے جنون کی شکل اختیار کرلی۔ میں نے آن لائن فورمز میں شمولیت اختیار کی، اور مجھے اس کے بارے میں جو مضمون ملتا، میں اسے بہت غور سے پڑھتی۔ اتفاق سے ایک روز میری کومل سے ملاقات ہوئی، جس کے شوہر بھی میری نانی کی طرح گلیوبلاسٹوما کا شکار تھے۔ اگر مجھے کومل کی رہنمائی نہيں ملتی، تو شاید ہمارے لئے اس بیماری کو سمجھنا اور نانی کے لئے صحیح فیصلے لینے ناممکن ہوتا۔ مجھے احساس ہوا کہ برین ٹیومر سے متاثرہ افراد اور ان کے گھر والوں کے لئے سپورٹ کا ایک نیٹورک بہت ضروری ہے، تاکہ لوگ ایک دوسرے کے تجربات اور ان کی طبی اور غیرطبی مشاورت سے مستفید ہوسکیں۔


رقیہ دیوان آدمجی - نواسی


رقیہ دیوان آدمی پاکستان کے شہر کراچی میں رہائش پذیر مصنف اور مصورہ ہیں، اور مقامی موضوعات کو ایک مزاحیہ انداز میں پیش کرتی ہیں۔


رقیہ نے 2013 میں ڈیوک یونیورسٹی سے ایکنامکس میں اپنا بی ایس سی مکمل کیا۔ اس کے بعد انہوں نے تین سال تک ایکومن (Acumen) کی پورٹ فولیو ٹیم میں کام کیا. وہ "چھوٹی چھوٹی خوشیاں" نامی کتاب کی مصنف اور مصورہ ہیں۔







3 views0 comments

Recent Posts

See All
Post: Blog2_Post
bottom of page